Media and it’s Impact on Human Life

میڈیا اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات
 
 Media and it's Impact on Human Life
حضرات! آج جمعہ کے خطبہ کے لیے میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے، وہ نہایت ہی حساس اور عصر حاضر کا سلگتا ہوا موضوع ہے۔ نہ صرف یورپ وامریکہ؛ بلکہ دنیا کا پسماندہ سے پسماندہ ملک بھی اس کے چنگل سے باہر نہیں ہے۔ اور سب سے زیادہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو انسان یا قوم یا ملک ترقی کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے،اس کےلیے ناگزیر ہے کہ وہ اس کو لے کرچلے۔اس کے بغیر اس دور میں ترقی کا تصوراور اپنی بالادستی کا خیال ایک وہم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔آج دنیا اس کو میڈیا کے نام سے جانتی ہے۔اخبار،جرائد،  مجلے، ماہنامے،ٹیلی ویژن، ریڈیو،انٹرنیٹ وغیرہ اسی تناور درخت کی مختلف شاخیں ہیں۔
خیر اور شر کے اعتبار سے ہم میڈیا کو دو خانوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے میڈیا کااستعمال صالح مقاصد کے لیے کیا جائے تو اس کے فوائد اس قدر ہیں کہ  گنے نہیں جاسکتے۔جبکہ برے مقاصد کے لیےاستعمال کیا جائے تودنیا میں اس سے بری چیزاور کیا ہوسکتی ہے!یقینا آج میڈیا کے یہ دونوں دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔اور حسب منشا لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
میڈیا کی تقسیم
دیکھا جائے تو میڈیا کوتین خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے؛
۱۔ مرئی، جس کا تعلق دیکھنے سے ہو۔ مثلا: ٹیلی ویژن، وی سی آر اور ریڈیو وغیرہ۔
۲۔سمعی، جس کاتعلق سننے سے ہو۔جیسے: آڈیوکیسٹ، ایم پی3، ریڈیو  اور  باجے وغیرہ۔
۳۔لسانی، جس کا تعلق پڑھنے سے ہو۔ جیسے: اخبار، جرائد، رسالے اور مجلے وغیرہ۔
ان میں سے اوّل الذکر اور ثانی الذکردونوں کو ہم الیکٹرانک میڈیا سے تعبیر کرتے ہیں۔ جبکہ تیسری قسم کو پرنٹ میڈیا کا نام دیا جاتاہے۔
سامعین کرام! آج میڈیا کے ان عناصر کی اہمیت کا کون منکرہو سکتا ہے، اور انسانی زندگی
کا کون ساشعبہ ہے، جو ان سے خالی اور الگ  تھلگ ہے۔ بلکہ نئی نسل کی زندگی کا آغاز ہی میڈیا سے ہوتاہے۔
آج چاہے مسئلہ حکومت و سیاست کا ہو، چاہے دین کی نشر واشاعت کا ہو، کمپنی،ٹریڈاور بزنس کےفروغ کا معاملہ ہو، جدید  تعلیمی وسائل کی فراہمی  کی بات ہو،یا کورٹ کچہری کے دنگل کی۔ہر جگہاور ہر موڑ پر  میڈیا  کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس مادی دور میں   دنیوی معاملات میں منافست  کوئی عجیب بات نہیں؛ بلکہ عین تقاضا ہے۔ مگر دین  کی نشر واشاعت میں  بھی  ہر مذہب کے پیروکارجس حد تک آگے نکل چکے  ہیں، ہم اس کی گردِ راہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نا ممکن اور محال ہو چکا ہے؛ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں ہم یقینا بہت پیچھے ہیں۔لوگ تحریف شدہ مذاہب، ترمیم شدہ دین دھرموں  اور صرف احبارورہبان کے  ملفوظات ہی نہیں؛ بلکہ اپنے وضع کردہ اصولوں کو بھی دین کا نام دے کر ، اس کی نشر واشاعت میں جس قدر میڈیا کا استعمال کررہے ہیں، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔ جبکہ لوگ نہ صرف دنیوی اموربلکہ اپنے دینی امور میں بھی ایک  دوسرےپر سبقت  لے جانے کی پوری کوشش میں ہیں۔ مگر ہم اب تک  خوابِ خرگوش میں مبتلا ہیں۔  جبکہ ہمارے پاس تمام  آسمانی صحیفوں کا سب سے آخری اور عظیم الشان نسخہ، یعنی رب کریم کا قرآن موجود ہے۔ جبکہ ہمارے پاس پیغمبرِ انسانیت  پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات، یعنی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا  ایک مایۂ ناز ذخیرہ  موجودہے۔  اس کے علاوہ ائمہ  ومحدثین اور علماء  ومفسرین  کے گراں بہا خزانے بھی موجود ہیں۔اور ایسا بھی نہیں  کہ یہ  امت میڈیا  کے اخراجات  کی متحمل  نہیں ہو سکتی ہے۔  بلکہ اس قوم  کو   نہ صرف قوت ارادی  وافر مقدار میں ملی ہے؛ بلکہ  قوت تحمل بھی کافی  مقدار میں اس کے پاس موجود ہے۔ بس ضرورت ہے بیدار ہونے اور ضروریات وتقاضوں کو اچھی طرح سمجھ کر مناسب قدم اٹھانے کی۔ بالخصوص جن کو اللہ نے دین کی دولت کے ساتھ ساتھ،  دنیا کی دولت بھی عطا کی ہے، ان اصحاب سیم وزر کی یہ ذمہ داری مزید  بڑھ  جاتی ہے۔
حضرات گرامی!میڈیا، اس دور کا  ایک عجیب وغریب انقلاب ہے۔اوریہ انقلاب ہرایک کی زندگی میں داخل ہو چکا ہے۔یہ سچ ہے کہ انسانی زندگی اور معاشرہ کی تشکیل پر اس کے مثبت اور  منفی دونوں  اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نازک موڑ پر ار باب فکر  وفن اور اصحاب سیم وزر پر، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میڈیا کے تمام  شعبوں اور شاخوں کو، اور اس کے تمام وسائل کو دنیا میں صحیح  دین کی صحیح اشاعت اور انسا نیت  کی  رہبری، امن وسلامتی اور سماج  کی ترقی اور ہر اچھے کام کے لیے مسخر کرلیا جائے۔  تاکہ نور وظلمت کے  تصادم  میں  شیشۂ  ظلمت وضلالت  پاش پاش ہو کر رہ جائے۔ حق کی حقانیت  کے مقابلہ میں باطل کو اپنی پستیٔ قامت کا نہ صرف احساس ہو؛ بلکہ حق کے سامنے  باطل سرنگوں ہوجائے۔ اور دنیا میں کتاب وسنت  کی ترویح کے ذریعہ ایک بار پھر  امن کا ماحول قائم ہو جائے۔
سامعین کرام!یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ میڈیا کا اٹیک،براہِ راست انسان کے ذہن پر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ زیادہ  مؤثر  مانا جاتا ہے۔  اس کے ذریعہ بڑی آسانی  سے کسی فکر کو عام کرنے میں بڑی مدد  ملتی ہے۔  خواہ معاملہ عقائد وعبادات کا ہو،  خواہ اخلاق وعادات کا  ہو،یا آپسی لین  دین  کا معاملہ ہو، ہر شعبہ  میں میڈیا کا صحیح استعمال ہوسکتاہے ۔ اور اس کوصحیح استعمال کے لائق بنانے کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔
“عن عبد الله بن عمر يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: “كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته، الإمام راع ومسؤول عن رعيته، والرجل راع في أهله، وهو مسؤول عن رعيته، والمرأة راعية في بيت زوجها، ومسؤولة عن رعيتها، والخادم راع في مال سيده، ومسؤول عن رعيته۔” قال وحسبت أن قد قال: “والرجل راع في مال أبيه، ومسؤول عن رعيته، وكلكم راع ومسؤول عن رعيته” (البخاری: 853)
اس حدیث کی روشنی میں  تو آپ میں سے ہر کوئی اپنی ما تحتی میں رہنے والوں کا ذمہ دارقرار پاتا ہے۔ اس لیے آپ میں سے ہر ایک کی یہ   ذمہ داری ہے کہ  اپنی ماتحتی میں رہنے والوں  کو برے راستے سے بچائے  اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی  کرے۔ اور اس ذمہ داری کے بارے میں قیامت کے میدان میں آپ سے باز پرس ہوگی۔آپ سے یقینا پوچھا جائےگا  کہ میڈیا کے دور میں  اصحاب  شر نے شر پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور آپنے اس کے ذریعہ خیر کے پھیلانے میں کیا کوشش کی؟ میڈیا  کے اس دہکتے ہوئے  انگارے کی لپیٹ میں  نہ صرف یہ سماج جھلستا رہا ہے۔ بلکہ آپ کی اولاد بھی اس کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکی۔(اے اللہ ہماری حفاظت فرما )
آپ کے اوپر  یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے کہ آپ  اپنی اولاد کو اس آگ سے بچائیں؟  آج کون انسان ہے، جو اولاد کی تربیت کے بارے میں سرگرداں  اور پریشان نہیں ہے؟ ان پریشانیوں کا حل یہ نہیں ہے کہ آپ حقائق سے آنکھیں موند لیجئے۔ آنکھیں موند لینے سے  حقیقت چھپ نہیں جاتی۔البتہ انسان کا ضمیر  اور احساس ضرور ختم ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے ان حقائق سے نظریں ملا نے کی کوشش کیجئے۔  ان کو  دیکھنے سمجھنے اور ان سے مقابلہ کے لیے تیاری کیجئے۔ آپ میڈیا کو ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ کوئی عقلمندی کی بات ہے۔ ہاں عقلمندی کی بات یہ ہے کہ آپ  اپنی اولاد کو نئی نسل، سماج  اور دنیا کو ایک نعم البدل ضرور عطا کر سکتے ہیں۔ اگر  کہیں سے ایمان کش اور زہریلے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، تو آپ ایمان افروزواقعات مرتب کر کے پیش کریں۔ کہیں وجود باری تعالیٰ کی حقانیت پر حملہ ہوتا ہے، تو آپ  وجود باری تعا لیٰ اور توحید باری  تعالیٰ کی نشانیاں ودلائل پیش کریں۔ کہیں اگر نبوت محمدی پر  ضرب لگتی ہے، تو آپ  محسن انسانیت کے احسانات کے ذکر وبیان سے میڈیا کو  بھر دیجئے۔ کہیں اگر حیاسوزی  کا کام ہورہا ہے تو اس کے مقابلہ میں  آپ عفت وعصمت کی حفاظت کے وہ نادر نمونے دنیا کے سامنے پیش  کیجئے کہ دنیا دنگ رہ جائے۔یقیناً میڈیا کو انسانی زندگی سے دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر  میڈیا میں صحیح چیزیں داخل کرکے انسانی زندگی کو پر سکون بنانے کا کام ضرور کیا جاسکتاہے۔ (ألیس منکم رجل رشید)
 ہے تم میں کوئی مرد مجاہد،  جو اس فکری  یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ کیونکہ زمانہ کو اس کی آمد کا شدت سے انتظار ہے۔
گرامی قدر سامعین! آپ میں سے کوئی  میڈیا کے کسی بھی شعبے سے  جڑا  ہوا ہے، تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میڈیا معاشرہ  کا آئینہ دار ہوتاہے، اور معاشرہ کا رہبر بھی۔ آج میڈیا کو معاشرہ کی تشکیل میں کلیدی  حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔   ہزار مخالفتوں کے باوجود بھی لاشعوری طور  پر سماج میں وہی تہذیب  راہ پا جاتی ہے، جو میڈیا کے ذریعہ پیش کی جاتی ہے۔ آج عمداً وسہواً ہر کوئی میڈیاکا مقلد ہے۔
آج میڈیا کے دور میں بڑی افراتفری کاعالم ہے۔ رائی کو پربت اور ذرہ کو پہاڑ بنانا  میڈیا کا اپنا شوق ہے۔ بہت سارے لوگ من گھڑت  واقعات کو بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے ان کا مقصد  اور انجام جو بھی ہو، تاہم سماج  اس سے  متاثر ضرورہوتاہے۔
“عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه و سلم کفی بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع” (مسلم:5)
“عن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلی الله عليه و سلم بعث معاذا رضي الله عنه إلی اليمن فقال: “أدعهم إلی شهادة أن لا إله إلا الله وأنی رسول الله، فإن هم أطاعو لذلك، فأعلمهم أن الله قد افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعو لذلك فأعلمهم، أن الله افترض عليهم صدقة في أموالهم، تؤخذ من أغنياءهم وترد علی فقرائهم” (البخاری:1395)
اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ دین کی دعوت اور اس کی نشر واشاعت کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا ۔ یعنی انہوں نے  وہاں دین کا پیغام پوری ذمہ داری کے ساتھ پہنچایا ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت مصعب بن عمیر کو اپنا سفیر بنا کر  مدینہ منورہ روانہ کیا۔ عہد صحابہ میں بھی اشاعت  دین کے لیے صحابہ کا زمین میں پھیل  جانا، ایک عظیم کارنامہ تھا، جس سے اسلام پھیلا۔ آج اس پیغام کو عام کرنے کے لیے ہم کو زیادہ اسفار کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ میڈیا کے استعمال کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت کافی حد  تک  پوری ہوسکتی ہے۔اللہ تعا لیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اسلام کے لیے میڈیا  کے صحیح  استعمال  کی توفیق  بخشے، آمین۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔ بارک اللہ لی ولکم ولسائر المؤمنین واستغفرہ إنہ ھوالغفور الرحیم۔

Deputy Bureau Chief and Senior Assignment Editor at Geo TV Quits

Senior Geo man in Peshawar quitsDecember 02, 2013

Amjad Aziz Malik, Deputy Bureau Chief and Senior Assignment Editor at Geo TV in Peshawar has resigned after 11 years with the channel.

Malik (pictured, foreground) opted to quit after developing differences with the management. “He was not getting the respect he deserved as a senior journalist,” said his colleague who asked not to be named.

Malik joined the channel in 2002 and progressed from a reporter to become the Deputy Bureau Chief and at one stage was also the Acting Bureau Chief.

During his association with Geo he covered countless bomb blasts that rocked the Khyber Pakhtunkhwa capital, at times putting his life in great danger.

Malik is the first Pakistani to be elected to the Executive Committee of the International Sports Journalists Association (AIPS) and has authored eight books.

A brazen attack on Pakistan’s free media By Mazhar Abbas in Express Tribune

A brazen attack on Pakistan’s free media By Mazhar Abbas

Published: December 4, 2013

The writer is a former secretary general of the Pakistan Federal Union of Journalists
The writer is a former secretary general of the Pakistan Federal Union of Journalists

The attack on Express Media Group’s Karachi office is a direct assault on ‘freedom of the press’. It is not simply a wake-up call, but perhaps, a final call for the media.

Sadly, an attack on one group or journalists has never been considered as an attack on the ‘media Industry’ as in the past.

I wonder why we never took such attacks, collectively? Marketing or competition should not come in the way when it is terrorism we are dealing with, because it is like a fatal disease which can affect us all.

No one has, so far, claimed responsibility for the attack but apparently the failure of the police and intelligence in the first probe resulted in the second assault on December 2. This time, the attackers were more organised and picked the peak time when journalists were busy rushing to the office to meet the ‘deadline’. Safety measures taken after the first attack and rapid response from the security guards also foiled the possible attempt to enter the office premises.

However, police and intelligence agencies never probed into the previous attack and closed the investigation as a ‘blind case’. The question is why? No report on the investigation of the first attack was filed? No arrests were made? All this gave encouragement to the assailants. In the first attack, they came on two motor bikes. This time, there were more. Where were the police mobiles and why were they removed?

It’s time to rise and defend press freedom. Silence will not save you. Today, it is Express, tomorrow it could be another group. Remember the famous lines, ‘when they came for me, there was no one left to speak for me’.

Here, I may recall the time when we fought a battle from a united platform with all the media stakeholders including owners, editors, journalists, hawkers with one voice observed a ‘One Day Strike’ and shut down newspapers when journalists came under attack and were killed.

I remembered the 1989 strike against the killing of three journalists. APNS, CPNE, PFUJ, APNEC, Akbar Faroosh Federation were on one platform. Again in 1995, when the then government closed six Karachi evening newspapers, a Joint Action Committee was formed and threatened to go on strike, if the ban was not lifted. The warning worked and within three days, the ban was lifted.
The next attack could be on another group or on another group of journalists, which God forbid could be fatal. If we act today, it can give a strong message to all those who are planning to supress the people’s voice, this time through terror.
Every media house must take any attack on any one group as an attack on the entire media. If in the 1950s there could be a joint editorial demanding the ban on “Civil and Military Gazette”, why can’t we do it for the ‘right reason’. Why can’t we have a joint editorial duly approved by APNS, CPNE, PBA, condemning the attack on the media and show resolve to fight this battle from united platform?
The symptoms of December 2’s attack indicate that the assailants were highly professional. Despite this being very congested area and with the traffic jam around the bridge and adjacent lanes, they managed to escape. The assailants must have been provided proper cover, by their accomplices.
Pakistani journalists have already paid huge prices. Post 9/11, over 100 journalists had been killed; some of them were brutally murdered after being kidnapped. Media houses or their bureaus in different parts of the country, particularly in K-P, Fata and Balochistan are under constant threat. Their cases have never been properly investigated or prosecuted. Yet, journalism has expanded from print to electronic, online to social media.
Will we all rise to the occasion? Silent will be as fatal and risky as in the battle field. We got this freedom after a very long struggle and we should not let it die.
Published in The Express Tribune, December 4th, 2013.

Pakistani journalist delegation visits India to boost trade relations

A delegation of Pakistani journalists arrived in India and laid emphasis on the need to strengthen trade ties between both the nations in a bid to bolster relations. The delegation entered India through Wagah border post in Punjab, on Monday. The group comprising 23 journalists is on a two-day visit to the holy city of Amritsar and also to see the progress of the Integrated Check Post (ICP) set up by India and Pakistan for cross-border trade. Recently, there were demands by some associations in India urging government to put a ban on the Attari-Wagah based traders to stop sending tomatoes to Pakistan.

ایکسپریس نیو زپر حملے کیخلاف صحافتی اداروں کی شدید مذمت، احتجاجی مظاہروں کا اعلان

Express Group Under Attack
Express Group Under Attack

کراچی: ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفتر پر حملے کی پاکستان کی تمام صحافتی تنظیموں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے جھبکہ متعدد صحٓا فتی تنطیموں کی جانب سے آج احتجاجی مظاہروں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کراچی آفس پر حملے کے بعد سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ صحافتی تنظیموں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے، صدر پی ایف یو جے رانا عظیم کا کہنا تھا کہ صحافی حوصلہ بلندرکھیں ، اس بزدلانہ کاروائی کیخلاف آج کراچی پریس کلب کے باہراحتجاج بھی کیا جائے گا۔آل پاکستان نیوز پیپرز ایسوسی ایشن نے ایکسپریس نیوزپرحملہ کو انتظامیہ کی ناکامی قرار دیتے ہوئے حملے کیخلاف آج ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے جبکہ لاہورپریس کلب کےصدر ارشد انصاری نے حملے کی مذمت کرتے ہوئےآج احتجاج کی کال دےدی ہے ۔ راولپنڈی اسلام آبادیونین آف جرنلسٹس نے بھی حملے کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے، اس کے علاوہ گوجرانوالہ میں صحا فی برادری کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ بھی کی کیا گیا۔ حیدرآبادیونین آف جرنلسٹس،خیبریونین آف جرنلسٹس، کوہاٹ پریس کلب اور ہری پورپریس کلب کی طرف سے بھی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ، دوسری جانب اٹک پریس کلب میں آج احتجاجی ریلی اورسیاہ پرچم لہرانےکااعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ایکسپریس میڈیا گروپ کر حملہ آوروں نے پہلے دستی بموں سے حملہ کیا اور پھر کے پی ٹی فلائی اوور سے شدید فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 سیکیورٹی گارڈز زخمی ہو گئے اور متعدد گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ 5 ماہ کے دوران ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفتر پر دوسرا حملہ کیا گیا ہے جو پولیس اور رینجرز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

#JangNews: Dr @AamirLiaquat #TajPoshi by @FUUAST #Karachi

جامعہ اُردو شعبۂ سماجی بہبود کی جانب سے عامر لیاقت کی تاجپوشی کی یادگار تقریب
Inline image 1
کراچی(اسٹاف رپورٹر)وفاقی اُردو یونی و رسٹی (شعبۂ سماجی بہبود) کی جانب سے معروف ریسرچ اسکالر،جیو نیٹ ورک کے وائس پریذیڈنٹ اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی گراں قدر خدمات،500بااثر مسلمانوں کی فہرست میں اُن کے نام کی شمولیت، امان رمضان ٹرانسمیشن کی عالمگیر مقبولیت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دینے پرمقامی ہوٹل میں اُن کی تاج پوشی کی تقریب منعقد کی گئی جس میں شہر بھر سے معروف شخصیات نے شرکت کی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی جامعہ اُردو کے رجسٹرار ڈاکٹر فہیم الدین نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ عامر لیاقت کی سچی لگن، خلوص اور جہدِ مسلسل نے اُنہیں کم عمری میں ہی ایک عبقری شخصیت بنادیا جس کی بدولت آج دنیا بھر میں اُن کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں چاہنے والے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کی تحریر و تقریر کا ایک ایک لفظ لوگوں کے احساس کی ترجمانی کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی بات لوگوں کے دِلوں میں گھر کرجاتی ہے ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ جامعہ اُردو کو فخر ہے کہ عامر لیاقت حسین جامعہ کے طالبعلم بھی ہیں کہ جن کی مثالی شخصیت عالم اسلام کے مشعلِ راہ ہے ۔سینئر صحافی اطہر جاوید صوفی نے کہا کہ عامر لیاقت جیسی ہمہ جہت شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے اوراُنہوں نے جس شعبے میں بھی طبع آزمائی کی تو کامیابی نے اُن کے قدم چومے۔ اُنہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر عامر لیاقت حسین ایک ایسے صحافی ہیں جنہوں نے کم عمری میں ہی ایک اخبار کے ایڈیٹر کی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دیں اور کالم نگاری میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔معروف اور سینئر صحافی اے اے فریدی نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مُردہ پرست قوم ہونے کے باوجودعامر لیاقت حسین کی پذیرائی پورے معاشرے میں ایک انقلابی تبدیلی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ عامر کی ذات ستارہ نہیںکیونکہ ستارے تو ہزاروں ہوتے ہیں اور ٹوٹ بھی جاتے ہیںلیکن اُن کی شخصیت چودھویں کے چاند کی مانند ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت گہنا نہیں سکتی۔ اُنہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ عامر لیاقت کے مخالف وہی لوگ ہیںجو معاشرے میں موت بانٹتے ہیںوہ بھلا تحفے اور خوشیاں بانٹنے کے حق میں کیونکر ہوں گے۔سینئر صحافی صابر علی نے عامر لیاقت کی علمی اور فنی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ فن صحافت ہو یا میدانِ سیاست،ذرائع ابلاغ ہو یا فنِ خطابت، فلاح و رفاہ کے کام ہوں یاشعبہَ خدمت صرف ایک عامر ہر میدان میںچھاگیا ۔ڈاکٹر ہما میر نے کہا کہ عامر ایک مکمل شخصیت کے مالک ہیں،اُن کے پروگرامز عالم آن لائن اور امان رمضان سے اتحاد و اتفاق کی ایک ایسی فضا قائم ہوئی ہے جس نے ایک دوسرے کے لیے محبت کو جنم دیا۔تقریب کے روحِ رواں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جب خطاب کے لیے آئے تو حاضرین نے کھڑے ہوکراُن کااستقبال کیا ،عاجزی وانکساری سے جُھکے ہوئے سر اور نَم آنکھوں کے ساتھ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اللہ تعالیٰ کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے اپنے خطاب کا آغاز کیا اور کہا کہ جب عرش والا پردہ پوشی فرماتا ہے تو دنیا والے تاج پوشی کرتے ہیں یہ اللہ ہی کا کرم ہے کہ اُس نے مجھ جیسے عاصی کو اپنی مخلوق کی خدمت کی توفیق سے نوازا ، ورنہ اُس کے ہاں کوئی کمی نہیںلاکھوں ،کروڑوں بلکہ بے شمار اُس کے کارخانہ قدرت میں موجود ہیں وہ جس سے چاہتا ہے کام لیتا ہے ہم اُس کے نوکراور غلام ہیں جب تک اُس کی توفیق ہے ہم پر اُس کی کرم نوازی جاری رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ، رسول کا غلام اور پاکستان کا بیٹا ہوں اہلِ کراچی کی محبتوں کا مقروض ہوں کہ میرے شہر نے ہمیشہ مجھے عزت دی اورمیری پذیرائی کی اس موقع پر اُنہوں نے خود پر تنقید کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میرے مخالفین بھی ہیں کیونکہ مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے فرمان کے مطابق جس کے ساتھ سب ہوں وہ منافق ہوتا ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ میری زندگی کا مقصد لوگوں کی خدمت کرنا اور آنکھوں سے بہتے آنسوں پونچھنا ہے اور جب تک پروانہ اختتام نہیں آجاتا لوگوں میں تحائف اور خوشیاں بانٹتا رہوں گا ۔ انہوں نے کہا کوئی تنقید یا مخالفت ان کے قدم نہیں روک سکتی ان کی زندگی ایک مشن بن چکی ہے ۔ انہوں نے اپنے مرحوم والدین اوراپنی زوجہ کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بشریٰ نے زندگی کے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا اور میرے شانہ بشانہ سائے کی طرح مصروف عمل رہیں آخر میں انہوں نے حاضرین کی فرمائش پر ’’میں تو پنجتن کا غلام ہوں ‘‘کلام سنایا تو آنکھیں نَم ناک ہوگئیں ۔تقریب کے اختتام پر پروگرام کی آرگنائزر اور شعبہ سماجی بہبود،وفاقی اردو یونیورسٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ناہید ابرار نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو اُن کی ہمہ جہت علمی وفنی خدمات پر تاج پہنایا اور کہاکہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی شخصیت کے لیے ہماری جانب سے ایک چھوٹی سی کوشش ہے ورنہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایک عظیم مرتبے کی حامل ہے جس کی قومی سطح پربھی پذیرائی ہونی چاہیے، تقریب کے دوران تقریب کے دیگر مہمانان میں ڈاکٹر قطب الدین، ڈاکٹر وقار الحق،مفتی محمد نعیم ،مفتی عبدالقادر ،ڈاکٹر فضل احمد، دانش مند فاروقی،تاج ملتانی ، جاوید علی، عمران شیخ عطاری اور اقبال میمن موجود تھے جبکہ جویریہ سلیم، عشرت علی، سعدیہ غزل، ماہ رخ ریاض، رینا عرفان ودیگر نعت خوانوں نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔اِس پُروقار تقریب میں میزبانی کے فرائض جواں سال مقرر اور محقق ابصار احمد نے انجام دیے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=151603

QoumiAkhbar: Khushyan Bantna Jurm Hai to 100 Baar Karunga, @AamirLiaquat

خوشیاں بانٹنا جرم ہے تو سو بار کروں گا، تنقید کرنے والوں کی پروا نہیں
، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
عامر لیاقت بڑوں بڑوں کی بولتی بند کردیتے ہیں، مقررین کا خراج تحسین
جس شہر میں روز جنازے اٹھاتے ہوں وہاں ٹی وی پروگرام کے ذریعے خوشیاں بانٹ رہا ہوں
سو فیصد لوگ جس کے ساتھ ہوں وہ منافق ہوتے ہیں، مخالفتین کا ہونا بھی ضروری ہے
آج کے دور میں تربیت کا فقدان ہے، ناہید ابرار کی جانب سے منعقدہ تقریب سے اظہار خیال
 
ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، دنیا کی پانچ سو با اثر شخصیات میں شمار ہوتا ہے
اپنے ٹی وی شو کو دنیا کے تمام ٹی وی شوز میں منفرد مقام دلایا ان کی تاج پوشی کرکے ثابت کیا کہ ہم زندہ قوم ہیں
ہما میر، اظہر جاوید صوفی، اے اے فریدی، صابر علی اور پروفیسر ناہید ابرار کا خراج تحسین
 
عامر لیاقت کا اپنے والد اور والدہ کو خراج عقیدت اہلیہ کی کاوشوں کو سراہا
عامر لیاقت پر طالبات کی گلپاشی، گلدستے پیش کئے
صحافتی سفر قومی اخبار سے شروع کیا، عامر لیاقت
الیاس شاکر کی محبت اور خلوص کا خصوصی تذکرہ
روزنامہ قومی اخبار، ۲ دسمبر ۲۰۱۴ء

 

ایکسپریس نیوز کے دفتر پر حملہ، صحافیوں کا احتجاج

Attack on Express Media Group

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایکسپریس نیوز کے دفتر پردستی بم حملوں سے حملہ کیا گیا۔صحافیوں کی تنظیم پاکستان

فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے اس حملے کے خلاف منگل کو ملگ گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

فائرنگ کے دوران ایک سیکورٹی گارڈ بھی زخمی ہوگیا۔ایکسپریس نیوز نے گارڈ کے حوالے سے بتایا ہے کہ کچھ مسلح افراد نے دفتر میں اندر داخل ہونے کی کوشش تو انھوں نے مزاحمت کی۔مسلح افراد نے فائرنگ اور دو دھماکے کیے جو خیال کیا جا رہا ہے کہ دستی بم کے تھے جس سے آس پاس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے۔

قیوم آباد فلائی اور کے قریب واقعے عمارت میں ایکسپریس نیوز، ایکسپریس اردو اخبار اور ایکسپریس ٹرائیبون کے دفاتر موجود ہیں، جہاں بڑی تعداد میں صحافی اور تیکنیکی عملہ فرائض سر انجام دیتا ہے۔

ایک سکیورٹی گارڈ کا کہنا ہے کہ دو موٹر سائیکلوں پر پانچ سے چھ لوگ سوار تھے جنہوں نے فائرنگ کی۔ان کا کہنا ہے کہ فلائی اوور سے بھی فائرنگ کی گئی اور اس صورت حال میں لوگ معجزانہ طور پر بچ گئے۔

وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کراچی میں ایکسپریس نیوز کے دفتر پر حملے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس قسم کی بزدلانہ کارروائیاں آزاد میڈیا کے جذبے اور ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو دبا نہیں سکتے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے گی۔

صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ ایکسپریس نیوز کو مزید سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔انھوں نے بتایا کہ فائرنگ فلائی اوور سے فائرنگ کی گئی اور پولیس نے ان پر جوابی فائرنگ کی۔ ان کے مطابق پولیس ملزمان کا پتہ لگا رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، مجلس وحدت مسلمین اور مہاجر قومی موومنٹ حقیقی نے حملے کی مذمت کی ہے۔

معاشرہ اور ذرائع ابلاغ

PakJournalist

ذرائع ابلاغ کی ترقی نے دوریوں کو سمیٹ دیا ہے۔ علم و خبر کی ترسیل میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔
افکار و آرا کی ترویج اور ابلاغ کے لیے دائرہ عمل وسیع تر ہو گیا۔ صاحبان علم و ہنر کے تعارف اور اثر پذیری میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔

ان پہلووں سے دیکھیں تو یہ ترقی ایک خیر و برکت کی چیز ہے۔ لیکن ان ذرائع کے سوء استعمال نے کچھ نئے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ یہ خیر کے علم بردار بنیں تو ان کے ذریعے سے ملک و قوم کی ترقی کا بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اگر شر کے نقیب بن جائیں تو ان کے ہاتھوں بربادی اور نقمت بھی آ سکتی ہے۔

اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم، ہمہ جہت زوال کا شکار ہیں۔ اقدار تلپٹ ہو گئی ہیں۔ مفاد پرستی کا غلبہ ہے۔ سفلی جذبات اور نفسانی محرکات کو انگیخت کرنے والے ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ جرائم کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پسے ہوئے اور مظلوم طبقات بے چین ہی نہیں، منفی نفسیات میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ خاندان باہمی الفت اور اعتماد سے محروم ہو رہے ہیں۔ نئی نسل ناراض نسل ہے، وہ شکایت کے لہجے میں بولتی اور شکایت ہی کے انداز میں عمل کرتی ہے۔ دولت، اقتدار اور شہرت منزل بن گئے ہیں۔ عزت ان سے وابستہ ہو گئی ہے۔ علم و ہنر اور بر و تقویٰ، باعث شرف نہیں رہے۔ جس کے پاس دولت اور اقتدار ہے، وہ ”بڑا آدمی” ہے، خواہ وہ خدا اور معاشرے کا مجرم ہو اور جس کا اثاثہ محض شرافت، دیانت اور وطن پرستی ہے، وہ ہیچ اور فرومایہ ہے، خواہ دین داری اور نیک روی میں اس کا کوئی ثانی نہ ہو۔

لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ مذہب محض تفرقہ بازی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے علم برداروں کو امن و آشتی اور حب و الفت کا پیام بر ہونا چاہیے تھا، ان کی زبانوں پر دشنام اور ان کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ ہے۔ عفو و درگزر اور رواداری تو ایک طرف، وہ اپنے مخالف کو زندگی کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔صورت حال اتنی گمبھیر ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ اس کی درستی کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

انھوں نے عورت کے حسن و جمال کو جنس تجارت بنا لیا ہے۔ ان کے ہاں اس کی پذیرائی کم ہی علوم وفنون اور شعر و تخلیق کے حوالے سے ہوتی ہے۔ بالعموم، اس کا کام عشوہ ترازی اور غمزہ و ادا سے لوگوں کے لیے جذب و کشش اور تفریح کا سامان بننا ہے۔

عشق و محبت کے مضامین کتابوں تک محدود نہیں رہے، شب و روز کا موضوع بن گئے ہیں۔ وہ باتیں جو ایک خاص عمر میں پہنچ کر دسترس میں آتی تھیں، انھوں نے اب لوری کی جگہ لے لی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ رشتے جن کی اساس ہی حیا پر رکھی گئی ہے، آہستہ آہستہ اس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماں اور بیٹا، باپ اور بیٹی اور بھائی اور بہن غرض رشتوں کا تقدس اب زمانہ ماضی کی چیز ہے۔

اخبارات و رسائل کا مطالعہ کریں، ریڈیو سنیں یا ٹی وی دیکھیں۔ معلوم ہوتا ہے دنیا کے اہم ترین لوگ کھلاڑی اور اداکار ہیں۔ اصحاب علم و فن، ارباب شعر و ادب اور رجال تحقیق کو کسی معاشرے میں جو مقام حاصل ہونا چاہیے، وہ انھیں حاصل ہے۔ اس کا یا کلپ نے انھیں نو نہالوں کا آئیڈیل بنا دیا ہے۔ یہ اور ان کی کامیابیاں اس طرح پر کشش بنا دی گئی ہیں کہ اب نوجوانوں سے علوم و فنون کی طرف رغبت کی توقع کرنا مشکل ہے۔

خبر کی ترسیل اور صحت مفادات سے وابستہ ہے۔ سیاسی واقعات اور جرائم کی خبروں کو سنسنی خیز طریقے سے شائع کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ٹی وی اور فلم نے عورت اور مرد کے آزادانہ میل جول کے لیے تحریک چلا رکھی ہے۔ مجرمانہ سرگرمیاں اور مجرموں کی دیدہ دلیریاں پردہ سکرین کی زینت بنا دی گئی ہیں۔ معاشرے کی تصویر کشی کے دانش ورانہ تصور کے تحت جو کچھ دکھایا جاتا ہے، اس سے ان کی بیخ کنی ہونے کے بجائے ان کی تربیت کا کام ہو رہا ہے۔

یہ تصویر حال ہے۔ اس کی سنگینی بڑی شدت سے تقاضا کرتی ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ اصلاح احوال کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف یہ کہ اپنا اصل کام انجام دیں، بلکہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست میں ہونے کی وجہ سے اپنی زائد ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہوں۔ ان کا اصل کام یہ ہے کہ یہ صرف انھی حقائق کی ترسیل اور ابلاغ کا ذریعہ بنیں، جو فی الواقع حقائق ہوں اور ان کا بیان کرنا انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کے منافی نہ ہو۔ رائے عامہ کی تربیت کا کا م ایسے اسلوب میں کریں کہ ان کے اندر مثبت سوچ اور مثبت جذبات پیدا ہوں۔

یہ ایسے علوم و فنون کے سکھانے کا کام سرانجام دیں جو لوگوں کے لیے مفید ہوں۔ اور اس سے ان کی روز مرہ کی زندگی کو بہتر کرنے میں مدد ملتی ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ اب بھی اخبارات اور بطورخاص ریڈیو اور ٹی وی سے ایک حد تک یہ کام لیا جا رہا ہے۔ لیکن اس میں نہ نشان منزل متعین ہے اور نہ طریق کار میں ہم آہنگی اور یک جہتی پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کام باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جائے۔

معاشرے میں کچھ لوگ اپنی تخلیقی صلاحیت اور فنی مہارت کے باعث ممتاز ہوتے ہیں۔ یہ ذرائع ان کی قدر شناسی کریں۔ ان کی مہارت اور صلاحیت سے معاشرے کو روشناس کرائیں۔ ان کے کام او رتخلیقات کے موثر طریقے سے معاشرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، بلکہ نئی نسل میں انھی کاموں میں آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوتا ہے اور یہ دونوں پہلو انتہائی اہم ہیں۔ قدر ناشناسی کے باعث پہلا طبقہ سکڑتا جا رہا ہے اور نئی نسل صحیح معنی میں تعمیری کام میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریزاں ہے۔

اسلام کے ساتھ وابستگی ان ذرائع کے کام میںدو مزید چیزوں کا اضافہ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ یہ لوگوں میں صحیح ایمان پیدا کرنے کے لیے ایمانیات سے متعلق قرآن و سنت سے ماخوذ استدلال کو پیش کریں اور اس کی بار بار تذکیر کریں تاکہ یہ چیزیں قلوب و اذہان میں راسخ ہوں اور کوئی شیطانی فکر و فلسفہ انھیں ریب و تردد میں مبتلا نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ ان ایمانیات کے مطابق لوگوں میں صحیح عمل کی آبیاری کا کام کریں۔ صحیح عمل کی اصل بنیاد لا ریب، آخرت کا اجر ہے۔ لیکن معاشرے کی تعمیر اور امن و راستی بھی اسی میں مضمر ہے۔ دین پر عمل پیرا ہونے کی دعوت، اس اعتبار سے دیکھیں تو دہرے نتائج کی حامل ہے۔ ایک نتیجہ اس دنیا سے متعلق ہے اور دوسرا دوسری دنیا سے اور ہم دونوں کی بہتری کے محتاج ہیں۔

یہ ان ذرائع کا بنیادی کردار ہے۔ ہم نے اس کردار کی اساسات بالاجمال بیان کر دی ہیں۔ ہماری زبوں حالی کے باعث ضروری ہے کہ ان ذرائع کے ارباب بست و کشاد درج ذیل امور کو خاص طور پر پیش نظر رکھیں:

١۔ لوگوں میں دینی بیداری پیدا کی جائے۔ اس کا انحصار صحیح دینی تعلیمات کے فروغ اور اعلیٰ کردار کی پذیرائی پر ہے۔ جب تک یہ کام خاص شعور اور تن دہی کے ساتھ نہیں کیا جائے گا، سوسائٹی پر اس کے اثرات نمایاں نہیں ہوں گے۔ اصلاً یہ جید علما کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے علماے کرام میں سے بہت کم لوگ ذرائع ابلاغ کی موجودہ ترقی سے کماحقہ کام لے رہے ہیں۔ چنانچہ دونوں طرف سے اس کوتاہی کا ازالہ ہونا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران، صاحب کردار جید علما کو دین کی توضیح و تعلیم کے لیے مواقع دیں اور علما ان مواقع کو استعمال کریں اور لوگوں کی دینی تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔

٢۔ ہمارے اس زمانے میں حقوق کے شعور کا بہت چرچا ہے۔ لاریب، استحصالی قوتوں کے استیصال کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کا ایک منفی نتیجہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ لوگ اپنا فرض ادا کیے بغیر حقوق کے طلب گار بنتے جا رہے ہیں۔ جبکہ صحیح صورت حال یہ ہونی چاہیے کہ ہر طبقہ اپنے فرائض ادا کرے۔ اس کے نتیجے میں خود بخود حق دار کو اس کا حق مل جاتا ہے۔ چنانچہ اس مہم میں ہر اس شخص کو مخاطب بن جانا چاہیے جو اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا ہے۔ شوہر اپنی ذمہ داری پوری کرے اور بیوی اپنے فرائض ادا کرے۔ آجر اپنے منصب کے تقاضے پورے کرے اور اجیر اپنا کام سر انجام دے۔ حاکم اپنے کام میں کوتاہی نہ کرے اور محکوم اپنے عمل میں کمی نہ کرے۔ غرض یہ کہ معاشرے کے ہر ہر فرد کو اس کی جگہ پر ذمہ داری کا شعور ہو۔ گویا بتانے کی بات یہ نہیں ہے کہ تمھارا یہ حق ہے اور تم اسے حاصل کرو، بلکہ بتانے کی بات یہ ہے کہ تمھارا یہ کام ہے اور تمھیں اسے پورا کرنا چاہیے۔

٣۔ ہمارے معاشرے میں صحیح معاشرتی رویے کا فقدان ہے۔ دو انسانوں کے مابین معاملہ پیش آتا ہے تو اس میں ناخوش گواری کی صورتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک تلخی دوسری تلخیوں کو جنم دیتی اور ایک خرابی مزید خرابیوں کا باعث بن جاتی ہے۔ عفو و در گزر اور اعلیٰ ظرفی کا رویہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ انتقام لینے اور بدلہ چکانے کی روش عام ہے۔ اس صورت حال کی اصلاح میں فلم اور ٹی وی ڈراما بہت موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہمارا کہانی نویس اور ڈرامہ نگار صرف معاشرے کی تصویرکشی پر انحصار نہ کرے، بلکہ ایسے کردار بھی روشناس کرائے جو ہرطرح کے حالات میں اعلیٰ اخلاقی رویے پر قائم رہتے ہیں اور اس طرح نہ صرف یہ کہ نیک نام رہتے، بلکہ بالآخر مصائب اور مشکلات سے بھی نکل جاتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کے سامنے روزمرہ کی زندگی کے معاملات سے نمٹنے کی صحیح مثالیں آئیں گی اور وہ اپنے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اقدار کا انحطاط، مفاد پرستی کا غلبہ، سفلی جذبات کا فروغ، خاندانی جھگڑے اور زیادتی کے نتیجے میں منفی نفسیات کا ظہور، اس طرح کے تمام مسائل کا اصل حل صحیح رویوں کی تربیت ہے اور یہ کام فلم اور ٹی-وی کا کہانی نویس نہایت آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے۔

٤۔ عورت بھی مردوں کی طرح متنوع صلاحیتوں سے نوازی گئی ہے۔ اگر وہ اپنی ماں اور بیوی کی حیثیت کے تقاضوں اور اسلامی آداب کو مجروح کیے بغیر کسی علم یا فن میں اپنی صلاحیت کو آزماتی اور اس کا اظہار کرتی ہے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں، بلکہ اس کی مناسب حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے یہ ذرائع ابلاغ اس بے چاری کی اس پہلو سے کم ہی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے کار پردازان اس میں مردوں کے لیے موجود کشش ہی کو اس کی اصل متاع مانتے اور صرف اسی پہلو سے اس کے قدر دان ہیں۔ کاروبار کی ترقی کے نقطہ نظر سے شاید اس کی کچھ اہمیت ہو۔ لیکن انسانی اخلاق اور عورت کی عزت نفس کے حوالے سے یہ ایک سنگین جرم ہے۔ پھر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی اس کی سنگینی میں اور اضافہ کر دیتی ہے۔ مزید براں یہ صرف عورت ہی کے خلاف جرم نہیں، معاشرے کا اخلاق بگاڑنے کا جرم بھی ہے۔ بے حیائی کے فروغ سے ایک طرف ناپسندیدہ سرگرمیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور دوسری طرف تعمیری کاموں کی طرف لگاؤ میں کمی آجاتی ہے۔ یہ چیز دو طرفہ زوال کا باعث بنتی ہے۔ معاشرہ اخلاقی کہتری کا شکار بھی ہوتا ہے اورمادی ترقی کا سفر بھی رک جاتا ہے۔ چنانچہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کیا جائے۔ عورت کے معاملے میں ذرائع ابلاغ کا موجودہ رویہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔

ہم اور ہمارا معاشرہ نقمت و زحمت کے جس دور سے گزر رہے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے ہمہ جہت اصلاحی عمل کی ضرورت ہے۔ اس عمل میں ذرائع ابلاغ کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا اسی نسبت سے ان کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ ایک طرف خودان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کریں اور دوسری طرف حکومت کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ ان کے اثرات کے بارے میں حساس رہے اور ان میں رونما ہونے والی خرابیوں کے سد باب کے لیے موزوں اقدامات کرے۔

Media Watch Pakistan is Largest Journalism and unbiased in-depth Plat Form in both, English as well as Urdu. The Press Council of Pakistan is an autonomous and independent apex body which issue and monitor good standards of media practice It reaches out to a wide readership including government officials, political leaders, diplomats, lawyers, civil society, activists and international community.